خوش آمدید فاسٹ انٹرنیٹ کیبل نیٹ ورک ہائی سپیڈ انٹرنیٹ کیبل تازہ خبریں --->> پاکستان میں براڈبینڈ صارفین کی تعداد 1.79 ملین تک جا پہنچی ---- پاکستان میں موبائل صارفین کی تعداد 114.61 ملین تک جا پہنچی ---- لینووو نے 27 انچ آئیڈیاسینٹر ہورائزن ٹیبلٹ پی سی متعارف کروا دیا ---- نئی سمز گھر کے پتہ پر ارسال کی جائیں گی : رحمان ملک ---- ایم سی بی کے تعاون سے نوکیا موبائل منی سروس اب پاکستان میں بھی ---- فیس بک نے گراف سرچ متعارف کروا دیا --->> Fast Media sharing Shortcut \\10.10.10.10 Next> Fast Media Icon (Islamic)(Indian English Movies)(Songs)(Wallpaper)(SOFTWARE'S),,,,, Linux-based operating system that is perfect for laptops, desktops and servers. It contains all the applications you need - a web browser, presentation, document and spreadsheet software Please Note: All User Ki Fees (500) Ho Gaye Hai, Jo user 500 se kam fees de ge un ki speed 512kb kar de jae ge Special Unlimited Package : ( 512 Kbps Rs: 400 )( 1 Mbps Rs: 500 )( 2 Mbps Rs: 800 ) Wifi Router Lagane k Ahleda Rs:100 Monthly charges Hain  

برما میں تاریخ انسانی کا سیاہ المیہ


ہمارے ہاں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بدھ مت سے تعلق رکھنے والے لوگ انتہا درجے کے امن پسند اور انسانوں کے لیے نرم دل رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ اس تاثر کی وجہ خود اس مذہب کے بانی بدھ کا عظیم انسانی کردار ہے جس نے دنیا کی سہولیات اور تعیشات کو انسانی مشکلات اور مصائب کو دیکھ کر ترک کردیا اور پھر انسانی آلام کو دور کرنے کے لیے اپنی زندگی کو وقف کردیا لیکن آج انسانوں کی بھاری اکثریت یہ نہیں جانتی کہ 89فی صد سے زیادہ تعداد میں برمامیں بسنے والے بدھ مت کے پیروکار اپنی ایک اقلیت کے قتل عام میں شریک ہیں، یا خاموش تماشائی ہیں یا بے اختیار، ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے ۔ اس امر کا اندازہ ایک عرصے سے برمی مسلمانوں پر جاری وحشیانہ تشدد اور قتل عام سے لگایا جاسکتا ہے۔سچ تویہ ہے کہ بدھ مت کے قاتل پیروکاروں نے پورے مذہب کو رسوا کر دیا ہے۔

برما کی آبادی 60.28ملین ہے۔ چھ کروڑ سے زیادہ اس آبادی میں مسلمان فقط چار فیصد ہیں جو اس وقت محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 24لاکھ کی تعداد میں ہیں۔ یہ مسلمان آج جس کسمپرسی اور بے چارگی کی زندگی بسر کررہے ہیں اس کا اندازہ برما سے باہر اور خاص طور پر ان مسلمانوں سے دور رہنے والے اللہ کے بندے نہیں لگا سکتے۔ بعض رپورٹو ں کے مطابق وہاں ہزاروں مسلمانوں کو تہ تیغ کردیا گیا ہے۔ سینکڑوں بستیاں اجاڑ دی گئیں اور سینکڑوں ہی گاؤں خاکستر کر دیے گئے ہیں، لاکھوں افراد کو ترک وطن پر مجبور کردیا گیا ہے۔ مسلم اکثریتی علاقے اراکان میں کرفیو نافذ کرکے مساجد کو سیل اور مسلم علاقوں کو فوج نے محصور کررکھا ہے۔ اطلاعات یہ بھی کہتی ہیں کہ یہ فسادات بدھ مت کے پیروکاروں نے اس وقت شروع کیے جب دو بدھ خواتین کے مسلمان ہونے کی خبر آئی اور پھر اس سلسلے میں وہاں تبلیغی جماعت کے دس افراد کو بھی شہید کردیا گیا۔اس کے بعد وہاں جو خوفناک حالات پیدا ہوئے وہ انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ ایک ایک گاؤں سے سینکڑوں مسلم نوجوانوں کو زبردستی اٹھا کر غائب کردیا گیا ہے۔ جہاں بعض کی کچھ وقت بعد لاشیں ملتی ہیں۔(۱)
اس سلسلے میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بعض مغربی ذرائع ابلاغ یہ ظاہر کررہے ہیں کہ برما میں یہ دو قبیلوں کی جنگ ہے۔ یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ راکھین کی بدھ آبادی راکھین نسل کی ایک خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد برہم ہوئی ہے۔(۲)
لیکن یہ سب کچھ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے کیونکہ برمی مسلمانوں کے خلاف حملوںکا سلسلہ 1978سے جاری ہے۔ برما میں الرھنجیا نامی مسلمانوں کے ایک بڑے قبیلے کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والی تنظیم کے چیئرمین الشیخ سلیم اللہ حسین عبدالرحمان نے بتایا کہ اراکان اور برما کے دوسرے علاقوں میں مسلمانوں پر ہونے والے یہ حملے، ہلاکتیں اور ہجرت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ 1978 میں بھی مسلمان آبادی پر ہونے والے حملوں کے بعد تین لاکھ مسلمان بنگلہ دیش میںپناہ حاصل کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ 1982 میں برما کی حکومت نے مسلمانوں پر ایک اور بم اس وقت گرایا جب اس نے ملک میں موجود تمام مسلمانوں کو اپنے شہری تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ برما میں موجود تمام مسلمان تارکین وطن ہیں۔ انھیں یہاں پر شہریت نہیں دی جاسکتی۔ 1992 کو برما کی حکومت کے حکم پر پولیس نے بنگلہ دیش سے واپس جانے والے تین لاکھ شہریوں کو دوبارہ بنگلہ دیش میں دھکیل دیا تھا۔ اس کے بعد سے مسلمانوں کو کچلنے کا سلسلہ جاری ہے۔(۳)
انسانی حقوق کے ایک میانماری مندوب محمد نصر کے مطابق مسلمانوں کے خلاف حالیہ جارحیت میں 300افراد لا پتہ ہو گئے ہیں جبکہ پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ حاصل کرنے والے ہزاروں افراد کو خوراک اور بنیادی اشیاءکی قلت کے باعث سخت مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ ایک ہفتہ کے دوران”ماگ“ ملیشیا کے دہشت گردوں نے میانمار میں مسلمانوں کے 20دیہات اور1600مکانات نقشے سے مٹا دیے جس کے باعث لاکھوں کی تعداد میں شہری نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ محمد نصر نے مزید کہا ہے کہ ماگ ملیشیا کے حملوں سے مسلمان اکثریتی صوبہ اراکان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں مسلمانوں کے اجتماعی قتل عام کے بعد ہزاروں کی تعداد میں شہری سرحد پار کرکے بنگلہ دیش میں پناہ گزین کیمپوں میں جانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ تاہم بنگالی حکام کا رویہ بھی معاندانہ ہے۔ ”ماگ“ کے دہشت گردوں سے جان بچا کر بنگلہ دیش جانے والے مسلمانوں کی کشتیوں کو بنگالی پولیس واپس کردیتی ہے۔ اس کے باوجود کم سے کم 3لاکھ افراد بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں پہنچ چکے ہیں۔(۴)
یہ امر باعث افسوس ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ممالک،ادارے اور تنظیمیں خاموش ہیں۔ اقوام متحدہ نے کوئی حرکت کی ہے نہ او آئی سی نے۔ پوری دنیا میں مسلمان بھی اول تو اس المیے سے آگاہ نہیں ہیں اور جن تنظیموں اور اداروں کو اس کی خبر ہے ان کی طرف سے کوئی قابل ذکر ردعمل سامنے نہیں آیا البتہ پاکستان میں برمی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی اور ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف جماعت اسلامی پاکستان نے ایک دن مختص کیا اور ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا۔
جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے اس موقع پر کہا کہ نہ او آئی سی کا کہیں وجود ہے اور نہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کے اندر کوئی دینی غیرت و حمیت موجود ہے کہ وہ برما میں مسلمانوں کے خلاف جاری آگ اور خون کے کھیل کو بند کرانے کے لیے آواز اٹھاتے جہاں گذشتہ چند ہفتوں میں ہزاروں مسلمانوں کو قتل کردیا گیاہے اور لاکھوں اپنے گھروں کو چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ کراچی میں احتجاجی مظاہرے کے کارکنوں نے ایک قرارداد میں مطالبہ کیا کہ برما کے مسلمانوں کا قتل عام بند کیا جائے اذان و باجماعت نماز پر پابندی ختم کی جائے مسلم بستیوں کا محاصرہ ختم کیا جائے اورمسلم نوجوانوں، علماءاور دانشوروں کے اغوا کا سلسلہ فی الفوربند کیا جائے۔ (۵)
پاسبان پاکستان کے صدر الطاف شکور نے میانمار میں بے گناہ برمی مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو خط لکھ کر برما کے مسلمانوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنے اس مکتوب میں لکھا ہے کہ اقوام متحدہ نے قیام امن کے لیے صرف مذاکرات پر انحصار نہیں کیا ہے بلکہ انسانی جانوں کو بچانے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے امن افواج کے ذریعے بھی جدوجہد کی ہے۔ میانمار میں صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہورہی بلکہ مسلمانوں کے قتل عام میں خواتین کی حرمت اور حقوق کی بدترین خلاف ورزی بھی ہورہی ہے۔ میانمار حکومت کی سر پرستی میں معصوم بچوں، عورتوںاور مردوں کے قتل عام کا مقصد مسلمانوں کی نسل کشی ہے۔(۶)
جیسا کہ بعض مندرجہ بالا رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے برما میں مسئلہ فقط فرقہ وارانہ تشدد کا نہیں ہے بلکہ برما کی حکومت خود مسلمانوں کے قتل عام میں شریک ہے۔ برمی فوج نے ہی مسلمان علاقوں میں کرفیو نافذ کر رکھا ہے ۔اس سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں کے لیے برمی حکومت بنیادی انسانی حقوق ہی کی قائل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور رپورٹ ملاحظہ کیجیے:
بلاشبہ میانمار میں قانونی حکومت کے قیام کی کوشش یورپی یونین کے زیرنگرانی ملک پر عاید پابندیوں کو کم کرنے کے لیے ہے لیکن یہ کوشش ہرگز ان بیس لاکھ مسلمانوں کو نظرانداز کرکے بار آور نہیں ہوسکتی جن کو روہینجیا کی اقلیت کا نام دیا گیاہے جو چند سالوں سے ملک کو چھوڑنے پر مجبور ہیں اور صفایا و خاتمہ کی مہم سے دوچار ہیں۔فوج ان مسلمانوں کو قانوناً الیکشن میں حصہ لینے ہی سے نہیں روک رہی ہے بلکہ انھیں شہری حقوق سے بھی محروم کررہی ہے۔ ان مسلمانوں کو وہاں کا نیشنل نہیں سمجھا جاتا ہے اور ان کے پاس پاسپورٹ بھی نہیں ہے اور انھیں اتری راحینی صوبہ سے میانمار کے دوسرے صوبے میں سابقہ اجازت کے بغیر سفر کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ پرسنل لاءسے متعلق کارروائی کرانے جیسے شادی بیاہ، بچوں کے نام درج کرانے کے سلسلے میں ایسی کڑی شرطیں ہیں جن کی وجہ سے وہ لوگ غیر قانونی طور پر پڑوسی ملکوںمیں ہجرت کرنے پر مجبور ہورہے ہیں، خاص طور پر بنگلہ دیش جو اکثریتی مسلم ملک ہے اور ہزاروں لوگ ہندوستان میں بھی مہاجر کی زندگی گزاررہے ہیں۔
امریکا کے انسانی معاملات کو منظم کرنے والے ایک ادارے کے آفس نے 23جنوری 2012کو یہ رپورٹ شائع کی ہے:
روہینجیا کے 40ہزار بچوں کا نام درج نہیں کیا جاسکا ہے، ان کڑی شرطوں کی وجہ سے جو وہاں کی اقلیت پر عائد ہیں ان میں سے ایک پابندی یہ ہے کہ دو سے زائد بچے نہ وں اور بیبیوں کے نام بھی نوٹ نہیں کیے جاتے۔ ان شرطوں کی خلاف ورزی ایسا جرم ہے کہ جس کی سزا دس سال قید با مشقت ہے۔ 1982میں جاری شدہ میانمار حکومت کے قانون کے مطابق روہینجیا کے تمام بچے خواہ ان کا نام نوٹ کیا گیا ہویا نہ کیا گیا ہو برمی نہیں سمجھے جائیں گے۔ انھیں غذا، خوردونوش، صحت کی سہولتیں اور تعلیم کے مواقع فراہم نہ ہوں گے اور انھیں فوج کے مفاد والے مشکل کاموں میں استعمال کیا جائے گا۔(۷)
ان رپورٹوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انفرادی واقعات کو بنیاد بنا کر برما کے مسلمانوں پر ٹوٹنے والی قیامت کے پس منظر کو نہیں سمجھا جاسکتا۔ جنسی زیادتی کا کوئی انفرادی واقعہ ہو یا مذہب کی تبدیلی کا کوئی واقعہ اس سنگین صورت حال کی ہمہ گیر بنیاد نہیں قرار دیا جاسکتا۔ جب ایک اقلیتی آبادی کو کچلنے کے لیے حکومت برسرکار ہو اور جس کی 25فی صد سے زیادہ آبادی ہجرت پر مجبور ہوچکی ہو اور باقی آبادی فوجی سنگینوں کے رحم و کرم پر ہو تو اسے عصری تاریخ کا سیاہ المیہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس المیے کی سیاہی اس وقت اور بھی زیادہ ہوجاتی ہے جب انسانی حقوق اور جمہوریت کے عالمی علمبرداروں اور ٹھیکیداروں کو اس سنگین انسانی مسئلے پر کوئی حرکت کرتے ہوئے نہ دیکھا جائے۔ البتہ ان سے شکایت تو ایک طرف مسلمان ممالک کو کیا ہو گیا ہے، کیا وہ زبانی بھی ظلم کے خلاف احتجاج کرنے کی اہلیت
کھو چکے ہیں؟

About the author

Admin
Donec non enim in turpis pulvinar facilisis. Ut felis. Praesent dapibus, neque id cursus faucibus. Aenean fermentum, eget tincidunt.

  Fast Media Web All Sharing Data For Live Web Site Enjoy

http://10.10.10.10:32400/web/index.html#!/server/c72f47b8bc3b9d15d3b58b831aa53a38e6ee4813/section/1
 Fast Movies Box Online Watch  All Movies  Ind Eng Pak  

Fast Media  FTP One  Movies  Download Time 2  Minutes

----- Media Plex Box -----

Copyright © 2016 FAST INTERNET CABLE NETWORK